(Shahr-e-Khamoshiyon Ka Nagma)
لاہور کی مصروف گلیوں میں جہاں پاپوش کی چاپ اور رکشوں کی کھنکھناٹ ایک مسلسل سمفنی بن کر گونجتی تھی، وہیں ایک گوشے میں واقع تھی قدیم لائبریری، جہاں زمانے کی خاموشی گونجتی تھی۔ یہی لائبریری تھی جہاں کیروش اور زینب کی کہانی رقم ہونے لگی۔
کیروش، ایک نوجوان مصنف، اپنی نئی کتاب کے لیے تحقیق میں مصروف تھا۔ پرانی کتابوں کی خوشبو اسے ماضی میں کھو دیتی۔ اسی دوران زینب، ایک فنِ خطاطی کی ماہر، نایاب نسخوں کی بحالی کے لیے لائبریری آتی تھی۔ اس کی نرم آواز اور قلم کی سرگوشی خاموشیوں کو چھیڑ دیتی تھی۔
ایک دن، کتابوں کے درمیان ان کی پہلی ملاقات ہوئی۔ کیروش، زینب کے فن سے mesmerized تھا، جیسے وہ الفاظ کو جان ڈال رہی ہو۔ زینب، کیروش کے خیالات کی گہرائی سے متاثر ہوئی۔ وہ اکثر کتابیں لینے کے بہانے بات چیت کر لیتے۔ ادب، شاعری، اور زندگی کے فلسفے پر ان کی گفتگو گھنٹوں چلتی۔
ایسی ہی ایک شام، لائبریری بند ہونے کے بعد کیروش نے زینب کو گھر چھوڑنے کی پیشکش کی۔ شام کی نرم روشنی میں، پرانے لاہور کی سڑکیں ان کے لیے نئے جہان کی سی لگنے لگیں۔ باتوں کا سلسلہ گزرتا رہا اور انہیں احساس ہی نہ ہوا کہ کب وہ زینب کے گھر پہنچ گئے۔
“آپ کی باتیں مجھے الفاظ کی دنیا سے باہر لے جاتی ہیں، جہاں احساسات کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے،” زینب نے نشیلی آواز میں کہا۔
کیروش مسکرایا، “اور آپ کے فن میں الفاظ روح پالیتے ہیں، جیسے وہ خاموشی گانے لگتی ہے۔”
وہ لمحہ ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس رات کے بعد، ان کی ملاقاتیں صرف لائبریری تک محدود نہ رہیں۔ وہ اکثر کافی شاپس پر جاتے، یا پرانی Haveliوں کی سیر کرتے۔ ہر لمحہ ان کی وابستگی بڑھتی جاتی تھی۔ کیروش اپنی ناول میں زینب کو بطور مرکزی کردار شامل کر چکا تھا، ایک ایسی خاتون جو خاموشیوں کو عشق کی زبان سکھاتی ہے۔
ایک دن، مری کے خوبصورت پہاڑوں میں گھومتے ہوئے، کیروش نے زینب کے سامنے زانو ¿ خم کر دیا۔ اس کے ہاتھوں میں اس نے اپنی ناول کا مسودہ تھما دیا جس کے سرورق پر لکھا تھا “شہرِ خموشیوں کا نغمہ” (City of Silences’ Melody).
“زینب، آپ میری کہانی کی ہیروئن نہیں بلکہ میری زندگی کی موسیقی ہو۔ آپ سے شادی کرکے میں اپنی خاموشیوں کو گنگنانا چاہتا ہوں۔”
زینب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو چمک اٹھے۔ اس نے کیروش کو ہاں میں جواب دیا اور اس طرح خاموشیوں کے شہر میں محبت کا نغمہ بلند ہوا۔
شادی کے بعد کیروش اور زینب کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی۔ کیروش کی ناول “شہرِ خموشیوں کا نغمہ” شائع ہوئی او瞬 چشم زدن میں (chun chuhaan mein) بہت مقبول ہو گئی۔ زینب کے کردار نے ادب نوازوں (adab nawaz) کے دلوں کو چھول लिया (chhu liya)۔ اس کامیابی کے ساتھ ساتھ ان کی اپنی زندگی بھی خوشیوں سے भरپور (bharpoor) ہو گئی۔
لیکن ایک دن، تقدیر ان کے سامنے ایک نئی آزمائش لے کر آئی۔ زینب کو ایک عجیب بیماری لاحق ہو گئی، جس کی وجہ سے اس کی بینائی آہستہ آہستہ کمزور پڑنے لگی۔ ڈاکٹروں نے علاج کا تو وعدہ کیا لیکن یہ بھی بتایا کہ اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
زینب کے لیے یہ خبر ایک صدمے سے کم نہ تھی۔ فنِ خطاطی اس کی جان تھی، اپنی تخلیق (takhleeq) کو متاثر ہوتے دیکھ کر وہ بہت پریشان ہوئی۔ کیروش نے اس کا ہاتھ تھاما اور اسے یقین دلایا کہ وہ اس کے ساتھ ہے، ہر قدم پر۔
اس مشکل وقت میں کیروش نے زینب کے لیے ایک خاص اسٹوڈیو بنوایا، جہاں وہ بریل کی زبان میں لکھ سکے۔ اس نے اپنی کتابوں کو بریل میں منتقل کرنے کا بھی بندوبست کیا تاکہ زینب اپنی پسندیدہ ادب سے دور نہ رہے۔ زینب نے بھی ہمت نہیں ہاری۔ اس نے بریل سیکھی اور لکھنا شروع کر دیا۔
شروع میں مشکل ضرور ہوا لیکن کیروش کی مدد اور اپنی لگن سے زینب نے اس مشکل پر قابو پا ( وہ دوبارہ سے لکھنے لگی، نہ صرف اپنے لیے بلکہ بصارت سے محروم دوسرے لوگوں کے لیے بھی۔ اس نے اپنی کہانیوں اور نظموں کے ذریعے ان کی دنیا میں روشنی پھیلانا شروع کر دی۔
کئی سال بعد، زینب اور کیروش ایک مضبوط رشتے کی مثال بن چکے تھے۔ ان کی محبت ایک ایسی روشنی تھی جس نے نہ صرف ان کی زندگیوں کو منور کیا تھا بلکہ دوسروں کے لیے بھی امید کی ایک کرن جگائی تھی۔ زینب کی کہانی، خاموشیوں سے نغمہ بننے کی کہانی، ادب کی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔